حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد فاروقی سرہندی رحمۃ اللہ علیہ

  • Admin
  • Jan 03, 2022

حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی  شیخ احمد فاروقی سرہندی رحمۃ اللہ علیہ

میاں جمیل احمد شرقپوری نقشبندی مجددی

 

جب دنیا میں کفر و طغیان ،شرک و بدعت کی گھٹا ٹوپ آندھیاں چھا جاتی ہیں ،اُس وقت رب ذوالجلال والاکرام اپنے فضل و کرم سے اپنے برگزیدہ بندے پیغمبروں  کو مبعوث فرماتا ہے اور وہ اس دنیا میں آکر بد عقیدگی اور کفر و طغیان کا مقابلہ کرتے ہیں اور مخلوقِ خدا کو گمراہی کے عمیق غاروں سے نکال کر صراط مستقیم پر گامزن کرتے ہیں۔

انبیاء علیہم السلام کا یہ سلسلہ سیدنا آدم علیہ السلام سے شروع ہو کر سیدنا نوح علیہ السلام ،سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور سیدنا عیسیٰ علیہ السلام سے ہوتا ہوا حضور پُر نور شافع یوم النشور حضرت محمد مصطفی ٰ سلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک منتہی ہوتا ہے۔جناب رسالت مآب  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم قصر نبوت کی آخری اینٹ ،سیدالمرسلین اور خاتم النبیین ہیں ۔حضور سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا۔چونکہ یہ سلسلہ رشد وہدایت جاری رہنا ہے اور سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم  خاتمِ نبوت ہیں اس لیے یہ کام حضور پُر نور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے غلاموں یعنی اولیاء ِ کرام بالخصوص مجددد ین  کے سپُرد ہوا۔ہر سو سال کے بعد ایک مجدد پیدا ہوتا ہے۔مجدد اپنے وقت میں حضور پُر نور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اسوہ حسنہ کا عملی نمونہ ہوتا ہے ۔ وہ حضور پُر نور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اتباع میں عزم و استقلال ،عزیمت و استقامت کا پیکر بن کر دین کی تجدید کرتا ہے۔ ایک ہزار سال کے بعد ایک بڑا مجدد پیدا ہوتا ہے  جو دین میں نئی روح پھونکتا ہے اور شرک و بدعت کا قلع قمع کر کے دین کو اپنے اصلی  رنگ میں پیش کرتا ہے۔

 حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد فاروقی سرہندی رحمۃاللہ علیہ 14 شوال 971 ہجری بروز جمعۃ المبارک سرہند شریف میں پیدا ہوئے۔حضرت کا نامِ نامی شیخ احمد رکھا گیا ۔حضرت کا سلسلہ نسب ستائیس واسطوں سے حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔

بہت سے بزرگوں نے حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد فاروقی سرہندی رحمۃاللہ علیہ کےورودِ مسعود  کے بارے میں پیش گوئیاں فرمائیں ۔حضور پیرانِ پیر دستگیر محبوبِ سبحانی شیخ عبد القادر جیلانی  رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مرتبہ مراقبہ کے بعد فرمایا کہ میں نے عالمِ واقعہ میں ایک نور کا مشاہدہ کیا ہے  جس کا ظہور مجھ سے پانچ صد سال بعد ہوگا۔اس ہستی کانام شیخ احمد ہوگا ،جن کے ذریعہ دینِ اسلام کی  تجدید ہوگی۔ حضور پیرانِ پیر دستگیر محبوبِ سبحانی شیخ عبد القادر  جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنا خرقہ مبارک خدام کے سپرد کیا اور فرمایا جب امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد فاروقی سرہندی رحمۃاللہ علیہ  کی بعثت ہو تو یہ خرقہ اُن کو دیا جائے۔

چنانچہ یہ خرقہ مبارک مختلف ذریعوں سے ہوتا ہوا  سلسلہ کے نامور بزرگ حضرت شاہ کمال کیتھلی رحمۃ اللہ علیہ کے پوتے حضرت شاہ سکندر قادری قدس سرہ العزیز کے پاس پہنچا اور اُن سے  حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد فاروقی سرہندی رحمۃاللہ علیہ کو ملا۔

تعلیم: 

 حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ  احمد سرہندی فاروقی رحمتہ اللہ علیہ نے پہلے اپنے والد محترم حضرت شیخ عبدالاحد رحمتہ اللہ علیہ سے تعلیم حاصل کی۔سترہ برس کی عمر تک اکثر علوم میں مہارت حاصل کر لی۔  حضور پر نور سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کے مطابق کہ دو شخص کبھی سیر نہیں ہوتے، ایک علم کو چاہنے والا اور دوسرا مال کا خواہش مند ،چنانچہ حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کی علمی پیاس نہ بجھی، تو گھر سے نکلے اور وطن مالوف  سرہند  شریف کو خیر آباد کہا اور سیالکوٹ آکر مولانا کشمیری رحمۃ اللہ علیہ سے جو اپنے وقت میں بہت بڑے عابد اور زاہد تھے تعلیم حاصل کی۔  حدیث کی بعض کتابیں مولانا یعقوب کشمیری رحمتہ اللہ علیہ سے پڑھیں۔  سیالکوٹ میں ہی حضرت ملا عبدالحکیم  سیالکوٹی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کے کمالات دیکھ کر ان کی بیعت کر لی۔اکیس برس کی عمر میں مزید علوم و معارف سے بہرہ ور ہو کر سرہند شریف آئے اور مسند درس و تدریس پر جلوہ افروز ہو گئے۔  حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کے والد ماجد حضرت شیخ عبدالاحد رحمۃ اللہ علیہ شیخ رکن الدین بن شیخ عبدالقدوس گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ مجاز تھے جو سلسلہ چشتیہ کے نامور بزرگ تھے۔ حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ سلسلہ چشتیہ میں اپنے والد بزرگوار علیہ الرحمہ سے بیعت ہوئے۔حضرت پیرانِ پیر شیخ عبدالقادر جیلانی محبوب سبحانی رحمۃ اللہ علیہ کا فیض ِقادریہ بوسیلہ خرقہ غوثیہ حاصل کیا۔حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کو حج اور زیارتِ مدینہ منورہ کا بہت شوق تھا چونکہ حضرتِ مجدد رحمتہ اللہ علیہ کے والد ماجد ضعیف العمر تھے، ان کی خدمت حج و زیارت میں مانع تھی۔

حضرت خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ:

حضرت خواجہ سید رضی الدین محمد باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ حضرت خواجہ امکنگی رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت ہوئے۔ سید محمد باقی باللہ رحمتہ اللہ علیہ نے کابل میں ایک خواب دیکھا کہ ایک طوطی ان کے ہاتھ پر بیٹھا ہے۔حضرت

 رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے منہ میں شکر ڈالی ہے۔حضرت خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس خواب کی تعبیر اپنے مرشد کامل حضرت خواجہ امکنگی رحمۃ اللہ علیہ سے دریافت فرمائی۔آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ طوطی سے مراد ہندوستان  کا ایک شخص ہے جو آپؒ کے فیض سے مشرف ہو گا اور جس کا فیض دنیا بھر میں پھیلے گا۔  حضرت خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ پشاور اور لاہور سے ہوتے ہوئے دہلی تشریف لاکر اقامت گزیں ہوگئے  اور بہت تھوڑے عرصے میں حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کی شہرت اطراف واکناف میں پھیل گئی۔  حضرت خواجہ عبدالواحد رحمتہ اللہ علیہ کا وصال ہوا تو حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ نے سفرِ حج کے لیے رختِ سفر باندھا۔جب دہلی پہنچے تو شیخ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نے جو خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ کے مخلص دوست تھے خواجہ موصوف کے فضائل بیان کئے اور زیارت کی ترغیب دی۔  حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ جب زیارت کے لئے حاضر ہوئے تو وہیں کے ہو کررہ گئے۔حضرت خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ نے ملاقات کرتے ہی فرمایا کہ یہی وہ شخص ہے جس کے لیے میں کابل سے آیا ہوں۔حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت خواجہ باقی باللہ رحمتہ اللہ علیہ کی بیعت کا شرف حاصل کیا۔  حضرت خواجہ محمد باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ پر بڑا ناز تھا۔ایک دوست کو خط میں اس کا اظہار یوں فرماتے ہیں: شیخ احمد مردیست از سرہند کثیر العلم و قوی العلم روزے چند فقیر با او نشست بر خاست کرد عجائب بسیار از روزگار اوقات او مشاہدہ نمود بآں ماند کہ چراغے شود کہ عالم ہا از روشن کرد و الحمد للہ تعالیٰ احوال کاملہ او مرابہ یقین پیوستہ ترجمہ:  شیخ احمد سرہند کے رہنے والے ہیں۔  وہ کثیرالعلم اور قوی العلم ہیں  فقیر نے چند روز اُن (شیخ مجدد) سے مجلس کی ہے۔  اس دوران ان سے بہت سے عجائبات دیکھنے میں آئے ہیں۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ چراغ کی طرح روشن ہوں گے جن سے جہان روشن ہوں گے ،الحمدللہ کے ان کے احوال کاملہ نے  مجھے اس امر کا یقین دلادیا ہے۔  حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ میں مسند رشد و ہدایت پر جلوہ افروز ہوئے تو مخلوق خدا اطراف و اکناف سے آکر حلقہ ارادت میں شامل ہونے لگی اور بڑے بڑے عمال و حکام آپؒ کے مرید ہو گئے۔

عہد اکبری اور دین الٰہی:

حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت باسعادت اکبر کے عہد حکومت میں ہوئی۔اکبر کے گرد ملا مبارک کے فرزند ابوالفضل اور فیضی کچھ پنڈت اور دیگر مذاہب کے لوگ اکٹھے ہو گئے اور اس کے مشیر بن گئے۔ ان مشیروں نے اکبر کو بڑے غلط راستہ پر ڈال دیا اور ایک نئے مذہب کی ضرورت پر زور دیا۔ چنانچہ ان مشیروں کے ایماء پر مختلف مذاہب کے چند اصولوں کے مجموعے کا نام '' دین الہی '' مقرر کیا گیا، دین الہی میں پیشانی پر قشقہ لگایا جاتا، جینو پہنے جاتے،  مسجد اور مندر کا رتبہ ایک قرار دیا گیا، بادشاہ کو خدا کا اوتار کہا جانے لگا اور اس کے لئے سجدہ تعظیم روا رکھا گیا۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ اور دینِ الٰہی کی مخالفت:

حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ اس وقت مسند ارشاد پر متمکن ہوئے  فتنہ دین الہی شب و روز ترقی پر تھا۔حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ اُن گمراہ کن حالات میں  کیسے خاموش رہ سکتے تھے۔  حضرت مجدد رحمتہ اللہ علیہ نے رام اور رحیم ایک، کے نظریے کی واشگاف انداز میں مخالفت کی اور فرمایا کہ ملت ما جداگانہ است۔ حضرت مجدد رحمتہ اللہ علیہ نے دین الٰہی کا رد کیا اور فتویٰ صادر فرمایا کہ سجدہ تعظیم ناجائز ہے۔  مسلمانوں کے لیے بارگاہ ایزدی کے سوا کسی کے سامنے سجدہ ریز ہونا ممنوع ہے۔

دربارِ جہانگیری میں تشریف آوری:

اکبر کے بعد اس کا بیٹا جہانگیر سریر آرائے سلطنت ہوا.  وہ بھی باپ کے نقش قدم پر تھا۔  حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ  تبلیغ حق میں شب و روز مشغول تھے۔  حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کا حلقہ  ارادت روز بروز وسیع سے وسیع تر ہو رہا تھا۔  جہانگیر کے درباریوں نے حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کے خلاف جہانگیر کے کان بھرنے شروع کر دئیے اور اکسانے لگے کہ یہ شخص  تیری سلطنت کے خلاف سازش کر رہا ہے۔  سجدہ تعظیم کو ناجائز کہتا ہے وہ دن دور نہیں جب تیری سلطنت پر قابض ہو جائے گا۔  یہ اپنے ہمنواؤں کی فوج تیار کر رہا ہے۔ چنانچہ جہانگیر نے حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کو اپنے دربار میں بلایا۔  حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ  دربار جہانگیر میں تشریف لائے۔  حضرت مجدد رحمتہ اللہ علیہ نے مسنون طریقہ پر السلام علیکم کہا  جہانگیر نے آداب شاہانہ اور سجدہ تعظیم کا مطالبہ کیا۔  اس پر حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کے فاروقی خون نے جوش مارا۔ حضرت مجدد رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ یہ ایک گمراہی ہے کہ انسان کسی انسان کو سجدہ کرے۔ میرا سر بارگاہ صمدیت کے سوا  کسی غیر کے آگے نہیں جھک سکتا۔  جہانگیر یہ صدائے حق سن کر بہت گھبرایا کہ یہ معاملہ کسی طرح نپٹ جائے۔میری بات بھی رہ جائے چنانچہ اس نے اپنے حواریوں سے مل کر یہ تجویز کیا کہ میں  فلاں کمرے میں بیٹھتا ہوں  اور حضرت کو اس کھڑکی سے گزار کر اندر لایا جائے۔حضرت تو محض گزرنے کے لیے جھکیں گے میری بات بھی اس بہانہ سے بن جائے گی۔جہانگیر کے عمال  حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کو مقررہ کھڑکی کے پاس لے کر گئے  اور اندر  گزرنے کو کہا،  حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ معاملہ کو جان گئے،  حضرت رحمتہ اللہ علیہ نے گزرنے کے لیے پہلے اپنا ایک  پاؤں گزارا اور پھر دوسرا اس طرح حضرت رحمۃ اللہ علیہ اندر تشریف لے گئے۔جہانگیر کو حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے پاؤں دکھائی دیے۔  اس نے اس کو اپنی ہتک تصور کیا  اور طیش میں آ کر اس کی پاداش میں حضرت رحمۃ اللہ علیہ کو قید کرنے کا حکم دیا۔

گوالیار کا قلعہ اور ایام اسارت:

حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کو گوالیار کے قلعے میں قید کردیا گیا جو کہ حکومت کے باغیوں کے لیے مشہور تھا۔  حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ حضرت یوسف علیہ السلام کی طرح جیل میں ہزار ہا گمراہوں کیلئے  رشد و ہدایت کا مینار ثابت ہوئے۔حضرت رحمتہ اللہ علیہ کے فیوض و برکات سے ہزارہا فاسق و فاجر متبع سنت ہوگئے  اور ہزاروں غیر مسلم مسلمان بن گئے۔

نتائج:

ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی وائس چانسلر کراچی یونیورسٹی نے حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کی  مساعی جمیلہ  کے اثرات کو نہایت جامعیت سے بیان کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ:  جہانگیر کے دور حکومت میں حضرت  شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ آگے آئے۔آپ رحمتہ اللہ علیہ کی مسلسل کوششوں سے تحریک '' احیائے دین '' کا آغاز ہوا.  چنانچہ اس انقلاب و تبدیلی کے نتیجے میں سیاسی سطح پر جو کوششیں کی گئیں وہ اکبر، جہانگیر، شاہ جہاں اور اورنگزیب عالمگیر کے درباروں کی بدلتی ہوئی فضاؤں میں مطالعہ کی جا سکتی ہیں۔اکبر بادشاہ آزاد خیال اور الحاد کا نقطہ عروج تھا۔  جہانگیر کی تخت نشینی سے اس آزاد خیالی کا زوال شروع ہوتا ہے۔  شاہ جہاں اگرچہ ایک پارسا سنی مسلمان تھا اور دربار میں کسی قسم کی مذہبی ڈھیل برداشت نہیں کرتا تھا تاہم  اس نے غیر سنیوں کو بھی مطمئن رکھا۔اورنگزیب عالمگیر سنیت کا نشانِ نصرت تھا۔

حضرت امام ربانی رحمۃ اللہ علیہ کی رہائی:

جہانگیر کی بیٹی کو خواب میں سرکار دو جہاں حضور پر نور جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم  کی زیارت ہوئی۔  حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہانگیر کی بیٹی کو فرمایا کہ ہم تمہارے باپ سے ناراض ہیں کہ اس نے ہمارے ایک مقرب نور نظر امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کو قید کر رکھا ہے۔جہانگیر نے جب یہ خواب سنا تو بہت متاثر ہوا،  جہانگیر نے حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ سے اپنی کو تاہیوں اور نافرمانیوں کی معافی چاہی اور حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی رہائی کے احکام صادر کیے۔حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ میں اس وقت تک جیل سے باہر نہیں آؤں گا جب تک میری یہ شرائط منظور نہ کی جائیں۔تمام مسمار شدہ مساجد از سر نو تعمیر کی جائیں۔  کفار سے شریعت محمدیہ کے مطابق جزیہ لیا جائے۔مسلمانوں سے ذبیحہ گاؤ کی پابندی ہٹا لی جائے۔دربار میں سجدہ تعظیم بند کیا جائے۔  حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کی یہ تمام شرائط مان لی گئیں اور حضرت رحمۃ اللہ علیہ جیل سے باہر تشریف لے آئے۔

وفات:

حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ نے وفات سے چند ماہ قبل یہ فرمانا شروع کر دیا  کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دنیا میں 63 سال جلوہ افروز ر ہے تو پھر ان کا غلام اس عمر سے زیادہ کس طرح رہ سکتا ہے۔حضرت رحمتہ اللہ علیہ عبادات و ریاضات کی وجہ سے بیمار ہو گئے۔ضیق النفس  کا شدید حملہ ہوا ہے لیکن اس بیماری میں بھی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے معمولات اور عبادات میں فرق نہ آیا،  وفات سے ایک روز قبل اپنے اہل خانہ اور خدام سے فرمایا کہ آج کی رات میری آخری رات ہے۔ چنانچہ 28 صفر المظفر 1034 ہجری 1624ء کو نماز فجر کے بعد 63 برس کی عمر میں  حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ واصل بحق ہوگئے۔

 صورت از بے صورتی آمد بروں

باز شد وانا الیہ راجعون